سی ایل نیوز (تحقیقاتی رپورٹ)
ذوالفقار علی بھٹو نے مادر ملت فاطمہ جناح کو اتنخابات میں ہرانے کے لیے ان پر تہمت تک لگائی اور انکے خلاف تقریر کرتے ہوئے یہ معنی خیز جملہ کہا کہ:
“اس نے شادی کیوں نہیں کی ہے؟؟؟”
کہا جاتا ہے کہ بھٹو کا یہ شرمناک الزام سن کر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے کچھ غیر ملکی صحافی رو پڑے تھے کہ یہ کیسی قوم ہے جو اس خاتوں پر بہتان لگا رہی ہے جس کو یہ مادر ملت یعنی ” قوم کی ماں ” کہتے ہیں، قائد ملت کی بہن پر یہ تہمت اس جمہوری چیمپئن کے چہرے پر وہ داغ ہے جو کبھی نہیں مٹ سکے گا۔
1965ء کی جنگ کے حوالے سے انتہائی لبرل اور فوج مخالف سمجھے جانے والے نجم سیٹھی کے مطابق یہ بھی بھٹو کی اقتدار ھوس کا ہی نتیجہ تھا ان کے الفاظ یہ ہیں:
“طارق علی کافی مشہورسٹوڈنٹ لیڈر تھے، انہوں نے اس وقت ذوالفقار بھٹو سے 1965ء کی جنگ کے بارے میں پوچھا جب وہ ایوب خان کو چھوڑ چکے تھے کہ یہ جنگ آپ نے کیوں کی تھی؟؟؟ اور آپ نے کی تھی یا انڈیا نے؟؟؟بھٹو نے جواب دیا: کہ ہم نے کی تھی مجھے یقین تھا کہ اگر ہارتے ہیں تو ایوب خان گر جائیگا، ایوب خان گرے گا تو میرا راستہ کھل جائیگا۔اگرجیت گئے تو ہیرو بن جائنگے کیونکہ میں ہی وزیر خارجہ تھا، دونوں صورتوں میں میری جیت تھی۔”
محض اپنا راستہ صاف کرنے کے لیے ذولفقار علی بھٹو نے پورے پاکستان کو داؤ پر لگا دیا، اگر پاک فوج اپنی جانوں پر نہ کھیلتی تو شائد ہم لاہور ہار جاتے۔
شیخ مجیب جب اگرتلہ سازش میں پکڑا گیا اور ایوب خان اس کو غداری کے جرم میں سزا دینے لگا تو اس کو چھڑانے کے لیے بھٹو نے ملک گیر مہم چلائی اور بدترین حالات میں انتخابات کا مطالبہ کر دیا، لیکن جب شیخ مجیب نے انتخابات میں کلین سویپ کیا اور بھٹو کے مقابلے میں دگنے ووٹ لے لیے تو بھٹو نے اقتدار اس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور اس کو غدار قرار دیا اور یہ مشہور نعرہ لگایا:
” ادھر تم ادھر ہم “
اسکے باوجود جب کچھ لوگوں نے شیخ مجیب کے ڈھاکہ میں بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی بات کی تو بھٹو نے دھمکی دی کہ:
“جو ڈھاکہ گیا میں اسکی ٹانگیں توڑ دونگا۔”
بنگال الگ ہوا، بچے ہوئے پاکستان پر بھی بھٹو کی جمہوری حکومت نہ بن سکی اور بھٹو تین سال تک کے لیے سول “مارشل لا” ایڈمنسٹریٹر بن گیا۔
اس حوالے سے روئیداد خان اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ:
” بھٹو نے مجھے رات کو دس بجے بلایا اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ جاگ رہے ہونگے، میں نے کہا کہ کتاب پرھ رہا ہوں، کہنے لگا یہ ٰیحیی نے کیا کر دیا، اس نے مجھ سے پوچھے بغیر ڈھاکہ اجلاس کی تاریخ طے کر لی، یہ تاریخ غلط فکس کی گئی ہے، اس کو چینج کراؤ، میں نے کہا کیسے؟؟؟ بنگالی تو مان گئے ہیں، بھٹو نے کہا بہت آسان ہے، ڈھاکہ میں ایک لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا کراؤ، ٹیر گیس ہوگی، لاٹھی چارج ہو گی، کچھ لوگ مرینگے، تاریخ تبدیل ہو جائیگی۔”
روئیداد خان کے مطابق بھٹو نہیں چاہتے تھے کہ ڈھاکہ میں اجلاس ہو، کیونکہ بھٹو سمجھ گئے تھے کہ جب تک مشرقی پاکستان، پاکستان کا حصہ ہے وہ کبھی وزیراعطم نہیں بن سکتے، کیونکہ وہ کبھی مجیب سے نہیں جیت سکتے۔
اس لیے مارچ سے ستمبر تک بھٹو نے کچھ نہیں کیا، جب پاک فوج ملک بچانے کے لیے دیوانہ وار لڑ رہی تھی، اگر اس وقت بھٹو سیاسی بھاگ دوڑ کرتے اور مجیب کو راضی کر لیتے تو شائد یہ سانحہ نہ ہوتا۔
پھر جب انڈیا نے حملہ کیا اور ملک ٹوٹنے کی نوبت آگئی تو وہ اس کو اقوم متحدہ میں روکنے کے بجائے کاغذات پھاڑ کر، اجلاس چھوڑ کر آگئے، اس نے بنگالیوں کو ” سور کے بچو ” کہہ کر مخاطب کیا، اسکی وہ تقریر آج بھی سنی جا سکتی ہے۔
پاکستان ٹوٹ گیا، بھٹو نے جناح کے پاکستان کو قتل کر دیا، محض اس لیے کہ اسکو اقتدار مل سکے، بلاآخر بھٹو کو اقتدار مل گیا، عوام کو پہلی بار ضروریات زندگی کی اشیاء جیسے آٹا اور چینی کے حصول کے لیے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا اور انکو مہنگائی کے معنی معلوم ہوئے۔
احمقانہ معاشی فیصلوں اور کمزور سفارت کاری نے ایسے معاہدات کروائے کہ پاکستان کو اپنے کئی سال کی چاول کی فصل شہنشاہ ایران کی ضمانت پر گروی رکھوانی پڑی، اور شملہ معاہدے میں جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن قرار دیا گیا، دوسرے لفظوں میں اپنے پانیوں کو انڈیا کے حوالے کرنا پڑا۔
وولر بیراج کے معاملے میں انڈیا کو نہ روکا جا سکا، ہاں جنرل ضیاء کے پیدا کیے گئے مجاہدین نے بعد میں اس پر حملے کر کے اسکی تنصیبات کو کئی بار تباہ کیا، بعد میں بھی حالات کچھ اچھے نہ رہے، بھٹو نے جس سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا اس کے متعلق انکی اہلیہ نصرت بھٹو نے برملا اعتراف کیا تھا کہ یہ مارکسزم سے اخذ کیا گیا ہے، جس نے کروڑوں کو خدا کی ذات کا منکر کر دیا اور آج بھی کر رہے ہیں، اسکے نتیجے میں صتعتیں قومیا لی گئیں جس سے نہ صرف ملک سے سرمایہ نکل گیا بلکہ صنعتیں اور بعض ادارے ایسے تباہ ہوئے کہ آج تک دوبارہ نہیں اٹھے۔
شراب کھلی عام پی جانے لگی، پاکستانی میڈیا پر پہلی بار بےحیائی اس دور کے لحاظ سے نظر آنے لگی، یہانتک کہ کراچی میں دنیا کا سب سے بڑا کیسینو بننا شروع ہوا جس کا مہیب ڈھانچہ شائد آج بھی کلفٹن کے ساحل پر موجود ہے، جمہوری حکومت کے اس شاندار کارنامے کے بعد وہاں جو کچھ ہوتا اس سے کم از کم اسلامی دنیا میں پاکستان کے “وقار” میں زبردست اضافہ ہوتا۔
بھٹو کے خلاف تحریک نے زور پکڑا اور آہستہ آہستہ مذہبی رنگ اختیار کر لیا، تو بھٹو نے اعلان کیا کہ “میرے ہاتھ میں علی رضی اللہ عنہ کی تلوار ہے ۔”
سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ اسکا کیا مطلب تھا، ملکی سیاست میں پہلی بار فرقہ وارانہ رنگ بھر دیا گیا، یہ رنگ نہیں بلکہ زہر تھا، اسکا یہ اثر ہوا کہ ظفر علی شاہ روڈ پر جیالوں نے مولانا شاہ احمد نورانی کی داڑھی نوچی، انکا جبہ پھاڑا اور اسکی پگڑی لیر لیر کر کے لے گئے، سو یہودی ایک مودودی کے نعرے لگے، بھٹو صاحب کے مصلوب ہونے پر یہ فرقہ وارانہ رنگ اور شدید ہو گیا اور آج تک قائم ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ بھٹو کے اس نعرے کا اثر یہ ہے کہ آج بھی ملک کی تیس فیصد آبادی فرقے کی بنیاد پر ووٹ ڈالتی ہے
میری یہ بات کچھ لوگوں کو سخت لگے گی لیکن یہ سچ ہے۔”بھٹو نے امریکی مخالفت کے باوجود ایٹمی پروگرام پر کام جاری رکھا جسکی ضیاء نے اس سے زیادہ تیز رفتاری سے تکمیل کی لیکن ان حالات میں ملکی سالمیت جس خطرے سے دوچار تھی اسکو ایٹم بم بھی نہیں بچا سکتا تھا۔”
سن 1977ء کے انتخابات میں کھلی دھاندلی پر پورا ملک سراپا احتجاج تھا، اور بہت سی جانوں کے ضیاع اور فسادات کے بعد بھٹو کو پاکستان قومی اتحاد کے دوبارہ الیکشن کے مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے، لیکن جب دستخط کا موقع آیا تو بھٹو عین وقت پر مسلم ملکوں کے دورے پر چل دئیے اور مخالفین بھٹو کی اس چال یا دھوکے کو سمجھ کر چیخ اٹھے، یہاں تک کہ ملک میں سول وار برپا ہونے کے لیے سٹیج بلکل تیار ہو گیا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب جنرل ضیاءالحق نے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا تاکہ ملک کی خود اپنے آپ کو برباد کر دینے کی سمت میں جاری اس مارچ کو روکا جا سکے، اور جمہوریت کی اس بساط کو لپیٹ دیا گیا
بشکریہ: ملک شفیق محمود