اسلام آباد (سی ایل نیوز آن لائن) اسلام آباد میں آج 3 سال سے لاپتہ صحافی مدثر نارو کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائکیورٹ نے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ انڈیپنڈینت اردو کی روپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے عدالت طلب کر رکھا تھا، جو آج سماعت کے دوران پیش ہوئیں.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ریاست کی طرف سے کسی کو اغوا کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔ کسی آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو ریاست کا رد عمل کیا ہوگا؟ پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو پوری مشینری حرکت میں آ جائے گی۔ٓریاست کا رد عمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہیے۔
تین سال سے لاپتہ صحافی مدثر نارو کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت کو بتایا گیا ہے کہ لاپتہ شخص کی اہلیہ بھی چل بسی ہیں۔ تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں۔ لاپتہ شہری مدثر کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور متاثرہ فیملی کو سنے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’بچے اور مدثر کی والدہ کو وزیراعظم کے پاس لے کر جائیں، کابینہ ارکان سے ملاقات کرائیں۔‘
شیریں مزاری نے عدالت کو مزید بتایا کہ ’بیان حلفی ابھی تک نہیں ملا، اس کے مطابق اخراجات کی ادائیگی کے لیے پراسیس کریں گے۔ وزیراعظم ان کو ضرور سنیں گے، پہلے ہم چاہتے ہیں کہ ان کے لیے اخراجات کی ادائیگی کا بھی پراسیس مکمل کر لیں، اس کے بعد لاپتہ شخص کے کمسن بچے اور دادی کی وزیراعظم سےملاقات کروائی جائے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر شیریں مزاری سے اس سوال پر آئندہ سماعت پر جواب طلب کرکے کیس کی سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کر دی۔