اسلام آباد (سی ایل نیوز آن لائن) لاپتہ صحافی مدثر نارو کیس میں عدالت نے ایک بار پھر سخت ریمارکس دے کر حکومت کیلئے پریشانی کی گھنٹی بجادی۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائ کورٹ میں ہوئ سماعت می چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئے کہ جبری گمشدگی حکومت کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں چاہے اسمیں جو بھی لوگ ملوث ہوں۔ اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں کہ لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کئیا جائے جس پر معزز چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دئے کہ ایک ڈکٹیٹر اپنی کتاب میں برملا اعلان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ لوگوں کو اٹھانا انکی حکومت کی پالیسی تھی۔ عدالت نے مزید کہا کہ ہم رپورٹس نہیں ایکشن چاہتے ہیں، حکومت اور وفاقی کابینہ اس معاملے پر جواب دہ ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت سے قبل بھی عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ لاپتہ صحافی مدثر نارو کو اگلی تاریخ پر عدالت میں پیش کئیا جائے۔ تاہم حکومت اس حکم پر عمدرآمد کرنے کی بجائے ٹال مٹول کرتی رہی جو اب تک جاری ہے۔ عدالتی حکم پرلاپتہ صحافی مدثر نارو کے خاندان اور 4 سالہ بیٹے کی وزیر اعظم سے ملاقات بھی کروائ گئ جس پر وزیر اعظم نے متعلقہ اداروں کو فوری احکامات بھی دئے تاہم ابھی تک عملدرآمد صفر ہے۔
مدثر نارو ایک صحافی اور بلاگر ہیں جبھیں 2018 میں ناران کے مقام پر اس وقت اٹھا لیا گیا جب وہ اپنی بیوی اور 6 ماہ کے بچے سچل نارو کے ساتھ سیر و تفریح کی غرض سے وہاں موجود تھے۔ گزشتہ سال انکی اہلیہ بھی وفات پاچکی ہیں جس کے بعد مدثر نارو کی بازیابی کیلئے اٹھنے والی آوازوں میں تیزی آئ ہے اور اب عدالت نے حوصلہ افزا طور پر اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی امید دلائ ہے۔ تاہم جب تک مدثر نارو بازیات نہیں ہوتا تب تک اسکے خاندان والے اور اسکا 4 سالہ بیٹا شدید ذہنی دباؤ اور تکلیف میں رہیں گے۔