فواد مسعود
صحافی، کالم نویس
اگست 18، 2023
وہ سڑک پر کھڑی بسکٹ بیچ رہی تھی۔ اسکے ساتھ چھوٹی بچی بھی تھی جسکی حالت انتہائی خستہ حال تھی۔ میں نے بائیک روک دی (ایسے افراد کو دیکھ کر میں اکثر رک جاتا ہوں انسے معاملات پوچھتا ہوں جو ہو سکے کردیتا ہوں کیونکہ زندگی کے ابتدائی ایام میں شدید غربت میں نے بھی دیکھ رکھی ہے)۔ خیر پورا بسکٹ کا ڈبہ خرید لیا اور کہا، آپ گھر بیٹھ کر کوئ کام کرسکتی ہیں؟ کچھ بھی کپڑے سلائ یا کوئ اور کام ہم آپکو چیزیں خرید دیتے ہیں تاکہ آپ اپنا کام شروع کرسکیں؟
اسنے کہا مجھے کوئ ہنر نہیں آتا میں ناز و نعم میں پلی تھی بس واجبی سی پڑھائ کی پیسہ تھا عیش و آرام تھا کچھ نا سیکھا، پھر شادی ہو گئ بچے ہوئے۔ اللّٰہ کی کرنی کہ خاوند کی حادثے میں موت ہوگئ۔ گھر میں روٹی کے لالے پڑ گئے۔ میکے گئ تو بھائیوں نے دھکے دے کر نکال دیا کہ جائیداد میں سے حصہ دینا پڑے گا۔ اب یہاں سڑک پر کھڑی کچھ بسکٹ بیچ لیتی ہوں تاکہ اپنا اور بچوں کا پیٹ پال سکوں۔
سن کر دل بیٹھ گیا اور اکثر میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہمت جمع کی اور کہا بہن آپ سوچ لیں کچھ کرنا چاہتی ہوں تو بتا دینا اور اپنا نمبر دے دیا۔
بقیہ رستے میں سوچ رہا تھا اللّٰہ اولاد دے گا تو انھیں تعلیم کیساتھ کوئ نا کوئ ہنر ضرور سکھاؤں گا خاص کر بیٹی کو تاکہ اگر کبھی زندگی ایسا دھوکہ دے تو ٹکے ٹکے کی نوکریاں کرنے یا سڑکوں پر رلنے کی بجائے عزت سے اپنا روزگار کما سکیں۔
آپ سے بھی التماس ہے اپنے بچوں خاص کر بیٹیوں کو تعلیم کیساتھ کوئ ہنر بھی ضرور سکھائیں۔ میں نے کروڑ پتی لوگوں کو ہنر مند افراد کے قدموں میں بیٹھے دیکھا ہے۔
آخری بات یہ کہ آپ بڑے بڑے شاپنگ مالز سے خریداری ضرور کریں مگر ان لوگوں سے بھی بلاوجہ چیزیں خرید لیا کریں اور اصل سے تھوڑے زیادہ پیسے دے دیا کریں تاکہ انکا انسانیت پر اعتبار بنا رہے اور انکے گھر بھی حلال کے تھوڑے پیسے چلے جائیں۔