فواد مسعود
صحافی، کالم نویس
اکتوبر، 5، 2023
کچھ سال قبل کی بات ہے، تب میں بسوں ویگنوں میں یا پیدل سفر کئیا کرتا تھا کیونکہ ابھی زندگی اپنی بھٹی میں خوب جلا رہی تھی۔ ایک شام میں بس سٹاپ سے پیدل گھر کی طرف جا رہا تھا کہ سڑک کنارے ایک ڈھابے پر اپنے ایک استاد صاحب بیٹھے دکھائ دئے جو سر جھکائے کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ انھوں نے میٹرک میں مجھے ریاضی پڑھائ تھی اور مجھ جیسے ریاضی میں انتہائ کمزور طالب علم کو اس مضمون میں پاس کروانا یقینی طور پر انھیں کا احسان تھا۔ خیر میں انھیں دیکھ کر رک گیا لیکن ہمت نہیں ہوئ کہ استاد کو کھانے کے دوران پریشان کروں۔ خیر میں انکے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ قریب پندرہ یابیس منٹ بعد وہ کھانا کھا کر فارغ ہوئے، پیسے دئے اور اٹھ کر مڑے تو پیچھے مجھے کھڑا پایا۔ اچانک دیکھ کر حیران ہوگئے، میں نے سلام کئیا، انھوں نے جواب دیا، قریب ہوئے تھوڑا غور سے دیکھا اور آخر کار پہچان لیا ساتھ ہنس کر بولے تم کب سے یہاں کھڑے ہو۔ میں نے کہا سر جب سے آپنے کھانا شروع کئیا تب سے، بولے مجھے بلا لیتے بیٹھ جاتے، میں نے جواب دیا سر ہمت نہیں ہوئ سوچا آپ خود ہی دیکھ لیں تو ٹھیک ہے۔ وہ حیران بھی تھے اور خوش بھی، گرم جوشی سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، حال احوال پوچھا، کام وغیرہ پر بات کی اور چلتے بھی رہے، میں انسے ایک قدم پیچھے چل رہا تھا، پھر رکے کہنے لگے ساتھ چلو میں نے پھر جواب دیا ہمت نہیں آپکے برابر چلنے کی، وہ مسکرائے اور باتیں کرتے ہوئے چلتے رہے۔ میں اس دوران کچھ نہیں بولا کیونکہ استاد بول رہا ہو تو میری ہمت نہیں پڑتی تھی بولنے کی۔ خیر میرا گھر قریب آیا تو اجازت طلب کی۔ انھوں نے ایک بار پھر کاندھے پر ہاتھ رکھا، تھپتھپایا اور کہا اللہ تمھیں بہت نوازے۔ میں نے جھک کر سلام کئیا اور اپنے گھر کی راہ لی۔
آج میرے اوپر اللہ کی بہت رحمت ہے، اللہ کا بہت احسان ہے مجھ ناچیز پر میں اکثر سوچتا ہوں کہ مجھ جیسا واجبی سا طالب علم آج جس بھی مقام پر ہے اس مین میرے اساتذہ کا یقینی طور پر بہت بڑا کردار ہے اور ساتھ میں یہ کہ انکی عزت و تکریم کرنے میں اپنی طرف سے میں نے کبھی کوئ کمی نہیں چھوڑی۔ والدین اور استاد کا ادب بلاشبہ آپ کو وہ کچھ عطا کرتا ہے جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اب یہ ضروری نہیں کہ ادب کی مہربانیاں تب ہی تسلیم کی جائیں جب آپ کسی عہدے پر پہنچ جائیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ اس افراتفری کے دور میں اتنا کماتے ہیں کہ پریشانی نہیں ہوتی، اگر آپ سکون کی زندگی گزار رہے ہیں، اگر آپ زندگی کے مسائل سے بنا کسی بڑے نقصان کے نکل آتے ہیں، اگر آپ گھر میں سکون میں ہیں تو یہ سب آپکی اسی سرمایہ کاری کا نتیجہ ہی ہے جو ادب کی صورت میں آپنے اساتذہ کو دی ہے۔ استاد خوش ہوکر جو دعا دیتا ہے وہ تاحیات آپکے کام آتی ہے۔ والدین اور استاد ہی دو واحد ہستیاں ہیں جو آپکی کامیابی پر حسد کرنے کی بجائے دل سے خوش ہوتے ہیں اور مزید دعائیں دیتے ہیں۔
مگر یہاں ایک اور پہلو بھی بیان کرنا ضروری ہے ہو سکتا ہے آپ مجھ سے اختلاف کریں اور وہ پہلو ہے دور جدید کے استاد۔ پرائیویٹ سکولوں میں انٹر پاس لڑکیاں لڑکے اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں۔ انکی اپنی ذہنی پختگی کیا ہوگی بھلا جو وہ طلباء میں منتقل کریں گے۔ تعلیم کا جنازہ نکل چکا ہے، اساتذہ ایسی ایسی حرکتیں کرتے پائے جارہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ لہٰذا میرے مخاطب آجکل کے بچے اساتذہ نہیں ہیں بالکہ وہ اساتذہ ہیں جو حقیقت میں اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہیں اور میں خوش نصیب ہوں کہ سوائے چند ایک کو چھوڑ کر مجھے آج تک جتنے بھی اساتذہ ملے ہیں سب میرے لئے رول ماڈل ہیں اور میں تاحیات انکی دل سے عزت کرتا رہوں گا کہ والدین کے بعد ان اساتذہ نے ہی مجھے اس معاشرے مین جینے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔
اپنے اساتذہ کی عزت کریں ناصرف زمانہ طالب علمی میں بالکہ تاحیات جب بھی جہاں بھی وہ دکھیں، ملیں یا بات ہو۔ میں نے بہت بہت لائئیق فائیق قابل بچوں کو صرف استاد کی بے ادبی کی وجہ سے زمانے کی ٹھوکریں کھاتے دیکھا ہے اور بہت بہت نالائیق بچوں کو (جن میں میرا بھی شمار ہوتا ہے) صرف استاد کے ادب اور انکی عزت کرنے کی وجہ سے کامیاب دیکھا ہے۔ استاد کی تکریم کے بارے مین کسی نے سچ کہا ہےکہ
باادب بانصیب، بے ادب بد نصیب۔۔۔۔۔۔